”اِک شخص سارا ٹاؤن ویران کر گیا“
(یاسرپیرزادہ)
یہ غالباً ساٹھ کی دہائی کا واقعہ ہے، کسی کتاب میں پڑھا تھا ،واقعہ کچھ یوں ہے کہ نوّے برس کی ایک فرانسیسی بڑھیا کو پیسوں کی ضرورت پڑ گئی ، اُس کی واحد ملکیت ایک اپارٹمنٹ تھا ، بڑھیا نے اپنا وہ اپارٹمنٹ قسطوں پر ایک وکیل کو اِس شرط کے ساتھ بیچ دیا کہ جب تک وہ زندہ رہے گی اپارٹمنٹ میں رہائش رکھے گی تاہم قسطیں جاری رہیں گی جس سے اُس کی گزر اوقات ہوگی مگر اُس کے مرنے کے ساتھ ہی قسطیں ختم ہو جائیں گی اور پھر وکیل اپارٹمنٹ کا مالک بن جائے گا۔ وکیل اُس وقت چالیس کے پیٹے میں تھا، اُس نے سوچا کہ سودا مہنگا نہیں، قسط کی رقم بھی کم ہے اور پھر بڑھیا آخر کتنے دن جی لے گی سو ڈیل ہو گئی۔ قدرت کو مگر کچھ اور ہی منظور تھا، دس سال بعد بڑھیا نے پورے طمطراق کے ساتھ اپنی 100ویں سالگرہ منائی ،یہی نہیں بلکہ بڑھیا نےاگلے دس برس بھی اطمینان سے گزارے اور 110ویں سالگرہ کا کیک کاٹا، وکیل اُس وقت پینسٹھ سے بھی اوپر ہو چکا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پکچر یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ وکیل صاحب کو مزید دس برس انتظار کرنا پڑا مگر یہ انتظار خود اُن کیلئے جان لیوا ثابت ہوا، بڑھیا زندہ رہی او ر وکیل صاحب فوت ہو گئے، وکیل کے مرنے کے دو سال بعد تقریباً 122سال کی عمر میں بڑھیا کا انتقال ہوا۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ بڑھیا کہاں دفن ہے لیکن اگر مجھے پتا ہوتا تو میں ضرور فرانس جا کر اس عظیم بڑھیا کی قبر پر حاضری دیتاجو تیس برس تک ایک وکیل کے پیسوں پر زندہ رہی اور اس کے سینے پر مونگ دلتی رہی۔
یہ واقعہ لکھنےکی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ اکثر اخبارات میں ایسے تعزیتی اشتہارات نظر سے گزرتے رہتے ہیں جو کسی خاندان کے طویل العمر بزرگ کی وفات پر غم گساروں کی طرف سے دیے جاتے ہیں، اِن اشتہارات میں دودھ پیتے بچے سے لے کر ستّر برس کے جانشین تک سب کے نام ہوتے ہیں ،مرنے والا چاہے پچانوے سال کا بابا ہو یا سو برس کی بڑھیا، ہمارے ہاں لواحقین ایسے غم مناتے ہیں جیسے یہ غنچے بن کھلے ہی مر جھا گئے۔ میں اشتہار کا سائز دیکھ کر اندازہ لگا لیتاہوں کہ مرنے والا کتنا امیر آدمی تھا،اگر اشتہار چوتھائی صفحے کا ہو تو سمجھ جائیں کہ فوت ہونے والا کم ازکم کسی ٹیکسٹائل مل کا مالک تھااور اگر اِس سے بھی بڑا ہو تو پھر سمجھیں کسی گروپ آف کمپنی کے چیئرمین صاحب فوت ہوئے ہیں جن کیلئے فائیو سٹار قبر ڈیزائن کی جائےگی جس میں فریج اور ٹی وی کے ساتھ اٹیچ باتھ بھی ہو گا۔ اگر مصر کے فرعون یہ کرسکتے ہیں تو آج کل کے فرعون کیوں نہیں !کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ مرنے والے کے لواحقین اِن اشتہارات میں روایتی باتیں لکھنے کی بجائے اگر جدت سے کام لیں تو اشتہار کی کیا صورت بنے گی۔ مثلاً ’’رِم جھم گروپ کے مالک عبد الشکور صاحب کل شام رم پیتے ہوئے وفات پا گئے ،پسماندگان میں آپ نے تین بیوائیں، سات بیٹے، دو بیٹیاں، چودہ پوتے، دس پوتیاں، چار نواسے، تین نواسیاں، اڑھائی ہزار ملازمین کی چار ماہ کی تنخواہ، آٹھ پلاٹ اور تین پلازے چھوڑے۔ اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔‘‘ ایسے عبد الشکوروں کے تعزیتی اشتہارات پڑھ کر میں سوچتا ہوں کہ ان کے لواحقین جب اشتہار کی عبارت لکھواتے ہوں گے توایک مرتبہ ان کے دل میں ضرور خیال آتا ہوگا کہ ابا جی نے زندگی میں کون سا کارنامہ انجام دیا جس کا ذکر یہاں کیا جا سکے، کارنامہ نہ سہی کوئی چھوٹا موٹا تیر انہوں نے مارا ہو یا دولت جمع کرنے کے علاوہ کوئی ایسا کام کیا ہو جس کے بارے میں لکھا جا سکے۔ تاہم یہ میری خوش فہمی ہے کہ عبدالشکور ٹائپ لوگوں کے لواحقین ایسا سوچتے ہوں گے، عبد الشکور صاحب نے اگر ملازمین کی تین ماہ کی تنخواہ نیچے لگا رکھی تھی تو ان کا بیٹا اب چار ماہ کی تنخواہ دابے گا، اضافی ایک ماہ کی تنخواہ ابا جی کے غم میں!\ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اُس 122سالہ بڑھیا کی طرح کئی سال تک ہمارے سینوں پر مونگ دلنے کے بعد فوت ہوئے مگر مرنے کے بعد اُن کی شان میں پسماندگان نے ایسے تعزیتی اشتہارات شائع کروائے جیسے وہ بہت عظیم لوگ تھے جبکہ اصل میں ان کے تعزیتی اشتہارات کی عبارت یوں ہونی چاہیے تھی کہ ’’کل رات بیرسٹر ع غ اچانک دماغ کی شریان پھٹ جانے سے فوت گئے، مرنے سے پہلے آپ ایک ڈکٹیٹر کو آئینی تحفظ دینے کی غرض سے قانون کا ڈرافٹ تیار کروا رہے تھے، انکے معاون کا بیان ہے کہ اِس قانون کی تیار ی میں انہیں اپنے ذہن پر بہت بوجھ ڈالنا پڑا اور کچھ نت نئی قانونی تھیوریاں تلاش کرنی پڑیں جو ماورائے آئین اقدامات کو تحفظ دینے میں استعمال کی جا سکتی تھیں، مگر ان کا ذہن یہ بوجھ نہ سہار سکا اور وہ جہان فانی سے کوچ کر گئے۔‘‘ لیکن پھر وہی بات یہ میری خوش فہمی ہے کہ کبھی ایسا ہو، ہماری روایات کے خلاف ہے کہ فوت ہونے والے کے بارے میں کوئی منفی بات کہیں، مرنے والا اگر ڈکیت بھی ہو تو افسوس کیلئے آنے والے یوں اظہار تعزیت کرتے ہیں کہ ’’ہائے بیچارہ بہت ہی شریف تھا ، جس گھر میں بھی ’کام‘ کی غرض سے جاتا کبھی آنکھ اٹھا کر پرائی بہو بیٹیوں پر نظر نہ ڈالتا، آنکھیں نیچی کرکے سامان سمیٹ کے آجاتا، دعا کر لیں جی !‘‘ یہ حال ہے ہمارا۔زندگی اور موت کا تو کچھ پتا نہیں ہوتا لیکن پتا نہیں کیوں مجھے لگتا ہے کہ شائد کسی دن پورے صفحے کا ایک تعزیتی اشتہار کچھ یوں پڑھنے کو ملے گا کہ ’’ہم سب کے پیارے، دکھی دلوں کے غم گسار، مرقع دیانت و شرافت، معروف پراپرٹی ٹائیکون حاجی باکردار صاحب بقضائے الہٰی اس دار فانی سے کوچ فرما گئے ہیں۔ آپ کی ساری زندگی لوگوں کو مفت دستر خوان پر کھانا کھلاتے، بڑی بڑی مساجد اور روحانی یونیورسٹیاں بناتے اور مجبور و بے سہارا لوگوں کو سینکڑوں کنال زمینیں مفت دیتے ہوئے گزری۔ آپ کی سخاوت دنیا کے کونے کونے تک پھیلی ہوئی تھی، دبئی کے بے گھروں کیلئے بھی چھت فراہم کرنے کیلئے بے چین رہا کرتے تھے۔ آپ نے ہمیشہ مخلوق خدا کی بھلائی کیلئے فائلوں کو پہیے لگائے رکھے تاکہ سلسلہ روز و شب رکنے نہ پائے۔ آج آپ ہم میں نہیں ہیں اور ہمیں لگ رہا ہے جیسے ایک نیک روح ہم سے جدا ہو گئی ہے۔ خدا آپ کی لحد کو آپ کی پراپرٹی جتنا وسیع و عریض کر دے۔ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی، اک شخص سارا ٹاؤن ویران کر گیا۔“
سو! احباب گرامی، کسی کی بخشش کیلئے دعا کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ کہیں آپ کسی اچھو ڈکیت، بیرسٹر ع غ یا پھر یتیم کی جائیداد پر قبضہ کرکے کروڑ پتی بننے والے کے حق میں تو ہاتھ نہیں اٹھا رہے، ایسا نہ ہو کہ روز قیامت مظلوم ہمارا ہی گریبان پکڑ کر ظلم کا حساب مانگ لے!