نجات دہندہ کاانتظارکیوں؟
(افضال ریحان)
آج کی مہذب ترقی یافتہ دنیا میں اس مسلمہ حقیقت کو گویا ایمان کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے کہ کسی بھی باشعور سماج میں شخصیات کی بجائے سسٹم کو مضبوط ہونا چاہیے اس لیے کہ شخصیات خواہ کتنے ہی بڑے لیول کی ہوں بہرحال فانی ہوتی ہیں اگر اقوام شخصیات کی مرہون منت ہوں گی اور سسٹم کی استواری پر کماحقہ توجہ نہ دی جائے گی تو پھر کسی بھی شخصیت کے مرنے یا ہٹنے پر ایک نوع کا قومی بحران کھڑا ہو جائے گا۔ ہم اپنے کسی بھی بڑے لیڈر کے مرنے پر اکثر یہ پڑھتے سنتے ہیں کہ اس کا خلاکبھی پورا نہ ہوگا حالانکہ ایسی بات نہیں ہے ہر بڑے سے بڑا خلا بالآخر پورا ہو جاتا ہے۔ کسی بڑے کی موت پر حضرت ابو سفیان نے یہ کہا تھا کہ بڑوں کی موت نے ہمیں بڑا بنا دیا۔ امریکی صدر جیفرسن نے کہا تھاکہ دنیا سے چلے جانے والوں کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ زندہ رہ جانے والوں پر حکومت کریں۔ درویش عظیم الشان اور ولولہ انگیز شخصیات کی عظمتوں کا منکر ہرگز نہیں، نہ ہی ان سے فیضیابی میں کسی سے پیچھے ہے لیکن اسے اپنی مسلم کمیونٹی سے ہمیشہ تین باتوں پر شکایات رہتی ہیں۔ اول شخصیت پرستی، دوئم قدامت پسندی، سوئم جنونیت کی حد تک عقیدت مندی، اگر یہ تینوں اوصاف ایک حد تک ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب یہ حد سے کہیں آگے تک چلی جاتی ہیں۔ جبکہ ہمارے روایتی سماج میں یہ غلو جتنا بڑھتا ہے اس کی اتنی ہی تحسین کی جاتی ہے شک ہے توگاؤں یا محلے کی مسجد کے کسی مولوی سے لیکر بڑے روایتی علامہ عالم یا سکالر کو پڑھ یا سن لیں ہمہ وقت آپ انہیں انہی تنگناؤں میں پھنسا ہوا پائیں گے۔
اس سے عام آدمی کیا سبق لے گا؟، یہ کہ’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو‘‘
اس لیے براہ کرم حقائق کی دنیا میں آجائیں یونیورسل سطح پر انسانی سماج کو فکری بلندیوں تک لانے کیلئے آپ نے کیا رول ادا کیا ہے؟ آپ لوگوں کی صدیوں پر محیط تاریخ سوائے تباہی و بربادی یا خونریزی کے اور کیا رہی ہے؟ حتیٰ کہ پرامن انتقال اقتدار کا کوئی ایک اصول یا اسلوب آپ دنیا کو کیا سکھلاتے خود بھی نہ اپنا سکے۔اگر آپ انسانی تعمیر و ترقی یا سائنسی ایجادات پر آجائیں تو صورتحال اس سے بھی پَتلی ہے۔
درویش نے جب عصر حاضر کے معروف مسلم سکالر ڈاکٹر اسرار احمد سے یہ سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کا بیڑا غرق کرنے میں، انہیں تعلی باز جنونی بنانے میں آپ کا رول زیادہ ہے یا دوسرےمولانا صاحب کا؟ تووہ کاٹ دار نظروں سے دیکھتے گویا ہوئے ’’نہ تو یہ اقبال، کیا آپ کا چچا لگتا ہے کہ انہیںچھوڑ دیا؟‘‘۔ عرض مدعا یہ ہے کہ ہم لوگ آج بھی اپنے سہانے ماضی کے قصے، کہانیوں اور اندھی عقیدت سے اوپر اٹھ کر عقل و دانش یا شعوری سر بلندی کی طرف آنے کیلئے آمادہ نہیں۔
لیگ سے ہوتے ہوئے براستہ اخوان اور الجماعۃ الاسلامیہ آپ لوگ القاعدہ، داعش، طالبان، حماس، اسلامی جہاد، حزب اللہ، لشکر طیبہ اور بوکو حرام نہ جانے کون کون سے جنونی طوفان اٹھا چکے، کیسے کیسے ڈکٹیٹروں کو اپنے ہیروز بنا کر پچھتا چکے،انہی عقیدتوں نے ہمیں اقوام دیگر اور ان بڑی شخصیات کے خلاف صرف منافرتوں کے بگولے چھوڑنا سکھلایا۔
اس ہیچمدان نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنی قوم کو کسی نہ کسی لالچی، حریص عہدےکے بھوکے کا پرستار پایا ۔ ہمارے لوگوں کو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ بھولے سے بھی کبھی کسی بااصول سچے کھرے انسانیت سے محبت کرنے والے اور اقوام دیگر کی بھلائی کے خواستگار، درد دل مند کو اپنا ہیرو بنایا ہو صرف ایک مثال اتا ترک کی ہے جسے اس کی قوم نے اپنا ہیرو بنایا مگر روایتی ذہنیت اس کے خلاف بھی منافرت پھیلانے سے کبھی باز نہیں رہی خود اس کی قوم میں کئی لوگوں کا بس نہیں چل رہا کہ اسے اس مقام عظمت سے کس طرح دھکا دے کر خود کو قومی یا اسلامی ہیرو کہلوا سکیں ۔ کیا ہماری اقوام میں کسی نے کبھی سوچا کہ وہ اپنی قوم پر کتنی مدت سے مسلط ہیں اور انھیں ازخود باوقار طریقے سے رخصت ہو جانا چاہیے؟ آخر ہم کیوں ہمہ وقت شخصیات یا نجات دہندگان کی تلاش یا انتظار میں رہتے ہیں اور جمہوری سسٹم کو استوار یا مضبوط بنانے کا نہیں سوچتے؟ یہ اعزاز آخر غیر مسلم اقوام اور ان کی قیادتوں کو ہی کیوں حاصل ہوا ؟ کیا کبھی ہم لوگوں نے جارج واشنگٹن کی عظمت کو سلام کیا؟ جسکی قوم اسے بار بار اپنی قیادت کی گدی پر بٹھانا چاہتی تھی مگر وہ بولا کہ میری قوم میں اور بھی بڑے قابل لوگ ہیں کیوں نہ انہیں خدمت کا موقع ملے بلکہ عظیم امریکی قوم کی طرف سےہمیشہ کیلئے یہ اصول بنا دیا گیا کہ کوئی کتنا ہی باصلاحیت کیوں نہ ہو اسے قومی خدمت کے بس دو مواقع ملیں گے۔ہماری اعلیٰ ترین روایت یہ ہے کہ 12 برس بعد جب قوم نے بزرگ رہنما سےمستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تو فرمایا کہ مجھے تو یہ ابدی و ازلی حکم دیا گیا ہے کہ خدا تمھیں ایک خلعت شاہانہ پہنائے گا لوگ اسے اتارنا چاہیں گے مگر تم اسے ہرگز نہ اتارنا…. یہ تو ماضی کی باتیں ہیں اب حال بھی ملاحظہ فرما لیں۔ ولی خان کہا کرتے تھے کہ ہماری حکمرانی کی کرسی پر نہ جانے کون سا ایسا لیکوڈ لگا ہوا ہے کہ جو بھی اس پر بیٹھ جاتا ہے پھر اس کے ساتھ چپک کر رہ جاتا ہے قوماتارنا چاہتی ہے مگر وہ یہ کہتے ہوئے مر جاتا ہے کہ میری یہ کرسی بڑی مضبوط ہے یہ مجھے نہیں چھوڑتی۔ اس ساری کتھا کا مدعا یہ ہے کہ الحمدللہ آج 2025 کے آغاز پرہماری صورتحال خاصی حوصلہ افزا ہے آج ہمارا کوئی قائد عوام، قذافی، خمینی، صدام حسین یا یاسر عرفات نامی ہیرو نہیں ،ہم کسی بھی نجات دہندہ ہیرو یا قائد کے چنگل سے بڑی حد تک باہر نکلے کھڑے ہیں۔